Saturday

RUBINA NAZLEE--روبینہ نازلی

A POETRY BOOK(DRECHA-E-DIL)BY RUBINA NAZLEE

صاحبِ قلم تہذیب و ثقافت کے رکھوالے ہوتے ہیں،اور کتاب ہماری تاریخ کا ایک موثر حوالہ ہوتی ہے۔ روبینہ نازلیؔ ایک ایسی ہی با خبر قلم کار ہیں۔وہ نثر لکھ رہی ہوں ،نظم یا کوئی افسانہ ان کا لہجہ ملائم اور سچائی کی چاشنی سے بھر پور ہوتا ہے۔روبینہ دل کی بات تو سیدھی سادی شاعری میں کرتی ہیں،مگر بات پھربھی فلسفے تک پہنچ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری میں نئی جہت،تازہ احساس اور منفرد فکر کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ شاعری حُسن و عشق کے تذکرے اور گُل و بلبل کی کہانی کا نام نہیں،شاعری تو جستجو اور آرزو کا نام ہے،آرزو زندگی کی علامت اور زندگی جستجو کا نام ہے۔

’’دریچہء دل‘‘میں آرزو اور جستجو کو بہت بلند مقام حاصل ہے۔

فوزیہ مغل

ڈائریکٹر۔مغل پبلشنگ ہاؤس۔لاہور

چیئر پرسن۔پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن

چیف ایڈیٹر۔ماہنامہ ’’سخن شناس‘‘

روبینہ نازلی۔۔ حقیقت نگار شاعرہ

                     

(* ڈاکٹر محمد صدّیق نقوی،ادونی۔آندھرا پردیش(انڈیا



درد و کرب کے اظہار کی شاعرہ۔روبینہ نازلی۔۔۔۔۔ روبینہ نازلی نئی نسل کی شاعرات میں اپنا ایک منفرد مقام اِس لیے رکھتی ہیں کہ اُن کا شعری اظہار سیدھے سادے بیانیہ کو اختیار کیے ہوئے ہے۔لفظ کو استعارہ یا علامت بنائے بغیر بھی وہ اپنے جذبات اور احساسات ، تصوّرات اور خیالات کو نہایت عمدگی کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔اُن کی شاعری ژولیدہ بیانی اور ادق پسندی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتی اور تفہیمِ معنی کے معاملے میں کسی بھی قسم کی کوئی رُکاوٹ پیش نہیں آتی۔انہوں نے غزل اور پابند نظم کے علاوہ نظمِ معرّا، آزاد نظم اور نثری نظم جیسے آزاد شاعری کے اسالیب کا بھی استعمال کیا ہے اور اپنے تجربات کی وسعت کو اُن کے توسط سے بساطِ شعری پر پھیلا دیا ہے۔

روبینہ نازلی نے اپنی غزلوں میں جہاں طویل بحروں کا استعمال کیا ہے وہیں مختصر بحروں میں بھی طبع آزمائی کرتے ہوئے اپنے اظہار کو کامیابی عطا کی ہے۔کبھی کبھی تو اُن کی مختصر سی بحروں کے آدھے سے زیادہ مصرعوں پر ردیف حاوی ہوجاتی ہے اور قافیے کا تسلّط دیگر لفظوں کے استعمال کے لیے تنگ دامانی کو ہوا دیتا ہے مگر نازلی کا کمال یہ ہے کہ ایسی بحروں میں بھی انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو کام میں لاکر مضامین کی بھر پور ادائیگی کے لیے گنجائش پید اکی ہے۔ اُن کی غزل کے اشعار کے دونوں مصرعوں میں کمال

درجہ کا ربط پایا جاتا ہے اور معنوی حُسن کی ایک سجتی سنورتی دنیا آباد نظر آتی ہے۔بعض غزلوں میں تو انہوں نے بہت دقیق اور کم تعداد رکھنے والے قافیوں کا بھی استعمال کیا ہے، ممکن تھا کہ ایسے وقت تجربوں کے کامیاب اظہار میں کچھ دُھند سی شامل ہوجاتی مگر نازلی نے اپنے تخلیقی ذہن کے توسط سے ہر شعری تجربے کو نہایت واضح انداز میں نمایاں کیا ہے۔

روبینہ نازلی نے قدیم لفظیات ہی کے ذریعے نئے خیالات اور تصوّرات کے چراغ جلائے ہیں اور اپنی داخلی کیفیتوں کی روشنی سے قاری کے لیے بصیرتِ باطنی اور مسرّتِ روحانی کا اہتمام کیا ہے۔نازلی کی شاعری میں جہاں ذات کا کرب اُبھر کر سامنے آتا ہے وہیں کائینات کے ہنگاموں سے پیدا ہونے والے تصادمات اور انتشار کا ماحول بھی درد کی لہریں پیدا کرتا ہے۔غمِ جاناں اور غمِ دوراں کی آگ نے نازلی کی ذات کوجُھلسا دیا ہے جس کی تمازت سے اُن کی شاعری میں ایک کرب و اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔

نازلی کی شعری کائینات میں محبوب،زندگی اور وقت کے جارحانہ رویّے کی نمائندگی ملتی ہ ے۔محبوب سے محبت

،بے وفائی،دل شِکنی و دل آزاری کا بیان نازلی نے بڑی حسّاسیت کے ساتھ کیا ہے۔محبوب کی بے التفاتی پر وہ خونِ جگر بہانے سے خود کو روکنا چاہتی ہیں۔محبوب کی ستم ظریفی،اُس کا خود ساختہ خوف، بے حِسی،جدائی کا امکان،بیچ بھنور میں چھوڑ دینا،شاطروں کی چال چلنا،ستم گر سمجھنا اور کہنا،ہجر و فراق کو طول دینا،انا کے سبب جُدا ہوجانا،بد گُمانی میں مبتلا ہونا،محبت کا جھوٹا ناٹک کھیلنا، زخم پر زخم لگانا،وفا کا جواب جفا سے دینا،فاصلے بڑھانا،سچ بولنے سے روکنا،عہد و پیماں کا توڑنا،تلخ نگاہوں سے دیکھنا، فرعونیت اختیار کرنا،مسیحا کے نام پر قاتل ثابت ہونا،تنہائی سونپ کر دل کو اُجاڑنا،یہ اور اِس طرح کے کئی رجحانات روبینہ نازلی کی شاعری کے حوالے سے انسانی نفسیاتی کشاکش اور اُلجھنوں کی آئینہ داری کرتے ہیں۔

محبوب کی ستم گری چاہے اپنے شباب پر ہی کیوں نہ ہولیکن اُس پر جان لٹانا،، موجِ دریا تمام خواہشات فطری انداز لیے ہوئے ایک خاتون کی مشرقی اقدار و روایت اور تہذیب و شائستگی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ روبینہ نازلی کا ذہنی رویّہ اِس حقیقت کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ کسی بھی حالت میں طلب گار کا محبوب پر قربان ہونا ہی زندگی کا عین مقصد ہوتا ہے اور اِسی مقصد کے لیے وہ ہر مشکل اور عذاب سے گزرنے سے بھی خو ف نہیں کھاتا۔

محبوب کی طرح زندگی اور معاشرے کے علاوہ وقت بھی ایک ظالم کے پیکر میں نمایاں ہوتا ہے۔روبینہ نازلی کی ذات ایک ایسا کربلا بن گئی ہے جس میں ہر طرف سے آنے والے تیروں اور سِنانوں نے اُن کے وجود کو چھلنی کردیا ہے اور تشنہ لبی اُن کی قوّتِ ارادی کو زائل کرنے کے لیے کمر بستہ ہوگئی ہے ۔ایسے وقت میں بھی نازلی کے قدم نہیں ڈگمگاتے بلکہ وہ اپنی ثابت قدمی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے حق کی طرفدار ہیں اور باطل نظریات کی پیروی کے لیے اُن کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔وہ دنیا کے ظالموں اور ستم گروں سے لڑنا جانتی ہیں اس لیے کہ اُن کو کامل اعتماد ہے کہ ربِ تعالیٰ کی ذات اُن کی حامی و ناصر ہے اور وہی مشکل کُشا اور کارساز ہے، وہ اپنے چاہنے والے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا چاہے ساری دنیا بے وفا کیوں نہ ہوجائے۔

ہر طرح کی بے وفائی اور ستم ظریفی کو روبینہ نازلی نے زندگی بھر برداشت کیا ہے لیکن انہوں نے کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہااور نہ کبھی اُن کے اندر کسی کے لیے بغاوت کا جذبہ بیدار ہوا ہے۔وہ تو صرف رات کی سنگینی سے

نکل کر صبح کے رنگین اُجالوں میں زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔وہ کسی سے بیر نہیں رکھتیں۔وہ تو اپنے محبوب کو سنوارنا چاہتی ہیں اور اُن پر کی

گئی بد گُمانی سے پژ مُردہ ہونے کے باوجوداپنی پاکیزہ طبیعت سے اُس کے گلشن کو سجانا چاہتی ہیں۔

غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ دوراں کے سائے بھی نازلی کی شاعری پر دراز ہوتے چلے گئے ہیں۔نازلی کے رومانی ذہن نے جہاں اُن کو کُھل کر داخلی کیفیات کے اظہار کی کشادگی عطا کی ہے وہیں اُن کو عصری حسّیت کی ترجمانی کا شعور بھی بخشا ہے جس کی وجہ سے اُن کی شاعری میں عصری موضوعات اور مسائل کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور زندگی کی تہی دامانی کا دُکھ بھی دکھائی دیتا ہے۔آج کے تلخ حالات، دہشت گردانہ ماحول، مجبور اور بے بس انسان اور مجروح ہوتی ہوئی انسانیت کا نوحہ بھی اُن کی شاعری کو ایک خاص منصب عطا کرتا ہے جس سے اُن کی عصری آگہی کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے۔

غرض روبینہ نازلی کی شاعری میں جہاں داخلی کیفیتوں کا درد روشن ہے وہیں خارجی دنیا کے اَن دیکھے حوادث، انوکھے واقعات اور نامساعد حالات سے جنم لینے والی تباہیوں اور بربادیوں کے کرب کا بھی اظہارہے جس نے انسانی زندگی کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر اُس کی شادابی کو چوس لیا ہے۔ وہ صرف ایک بہترین شاعرہ ہی نہیں ایک محقق اوایک افسانہ نگار بھی ہیں ان کی کہانیوں کا مجموعہ’’کہانی‘‘ادبی دنیا میں ایک اور منفرد اضافہ ہے۔وہ کالم نگار بھی ہیں اور ان کے کالم بہت پُر مغز اورنہ صرف نئے دور کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان کا حل بھی بتاتے ہیں۔اسی لیئے ان کی مضامین کی کتاب،دیدہء بینا ایک منفرد کتاب ہے۔روبینہ نازلی کی عالمی شہرت یافتہ کتاب علم الا انسان کے مطالعہ سے اس بات کا ثبوت فراہم ہو جاتا ہے کہ نہ صرف ان کی عالمانہ سطح نہایت صاف و شفاف ہے جس سے گذر کر قاری حقائق کی تہہ تک با آسانی پہنچ جاتا ہے بلکہ ان کی صوفیانہ فکر بھی کافی بلند پرواز ہے جو قاری کو مذہب،تاریخ،تہذیب اور عمرانی علوم کے ساتھ ساتھ سائنٹفک دنیاؤں کی سیر کراتی ہے۔نازلی کی معلومات بے حد وسیع اور ان کا جذبہ و احساس سیقل شدہ ہے۔ایک ایسے وقت میں جب کے نہ صرف پاکستان کا انسان اور معاشرہ منتشر خیالی کا شکار ہے،بلکہ عالمی سطح پر بھی انسان اپنا تشخص کھو تا جا رہاہے۔ان کی خداداد صلاحیتوں نے کمال دکھایا اور ان کی کتاب منظرِ عام پر آئی،جس کے مطالعے سے کوئی بھی انسان خود کو شناخت کرنے کی کوشش کر سکے گا۔یقیناً یہ کتاب(علم الانسان)روبینہ نازلی کو یونیفایڈ سائنس کی بنیاد گذار کا درجہ عطاء کرے گی۔انہوں نے اس کتاب میں جسم ،روح،قلب،دل،نفس،ضمیر،ہمزاد،اور اورا کے حوالے سے جومواد اور جو نظریات خوش اسلوبی سے پیش کیئے ہیں اور سائنٹفک انداز میں پیش کئیے ہیں وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ قابلِ قدر بھی ہے۔روبینہ نازلی خدادادصلاحیتوں کی حامل ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔اور ایسی منفرد شخصیات اب خال خال ہی ہیں۔

روبینہ نازلی کی تمام مطبوعہ کتابوں پر اوران کے مزیدمنفرد تخلیقی کام پرمیں دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

Friday

HAMD(حمد)


اے کاش میرے ہاتهه میں وہ چراغ ہو..

Ay kash mere hath me
wo chrag ho
kay leye phiron
isay ko ba ko
kray roshni jo jhan me
rhay hr koi is aman me


نازلی پہ جو ہوتا دست کرمBAT DIL KE


نازلی پہ جو ہوتا دست کرم
آبرو کیوں تیری اے شہ جاتی

BAT DIL KE ME APNAY KAH JATE
KASH YE DARD BHE ME SAH JATE

PAYAR KA TOO JO HOTA DARYA TO
MAIN TERAY SATH SATH BAH JATE

TOO SAMAJHTA AGAR MUJHAY APNA
TERE PARCHAIN BAN KAY RAH JATE

NA HOWA JALWAGAR TO ACHA HOWA
WARNA TANVEER-E MAHRO MAH JATE

KABHE HOTAY NA APNE ZID SAY GUDA
JO IMARAT ANA KE DHAY JATE

NAZLEE PAY JO HOTA DASTE KARAM
ABRO KYUN TERE AY SHAH JATE

SRE MiSGan Sitaray...سر مژگاں ستارے چمکنے لگے

Add سسر مژ
مژگا ستارے چمکنے لگےں

Rubina Nazlee;poetess
روبینہ نازلی; شاعرہ

DIL-دل



DIL-دل

BY POETESS RUBINA NAZLEE

دل کانچ کا ٹکڑاہے

DIL KANCH KA TUKRA HAY
KAHIN THAIS NA LAG JAYE
YE RAIT GHARONDA HAY
KAHAIN KHUD HE NA GIR JAI
YE MEHAL HAY KHAWABON KA
SARAB NA HO JAI
SANBHAL KAY RAKHNA
KAHAIN DIL HE NA KHO JAYE

مہنگای mahngai





  • مہنگای
    mahngai by poetess rubina nazlee


    mahnge say mahnge sabziyan jo kha rahay hain hum
    janay ye kis gunah ke saza pa rahay hain hum

    phal gosht shahad hisae tareekh ban gaye
    bachon ko un kay khwab he dikhla rahay hain hum

    tankhwa me apne joton ka milna mahal hay
    janay kahan say gareyan phir la rahay hain hum

    kal ghar me dal rote pakane kay wastay
    daka kise kay dalnay ghar ja rahay hain hum

    bharnay ko ayk payt ka dozakh tamam umar
    bay khof bus gunah keyay ja rahay hain hum

    majbore me haram bhe ho jata hay halal
    ye soch kar haram he bus kha rahay hain hum

    mahngai nay gareebon ke roti bhe cheen lee
    ab zindage say nazlee ghabra rahay hain hum

RISHWAT-رشوت

RISHWAT-رشوت
BY-RUBINA NAZLEE


RUPAY KAHAN SAY DHERON YE LANAY LAGAY HAIN LOG
KHARCHAY KAHAN SAY APNAY CHALANAY LAGAY HAIN LOG


TANKHWA HAY MUKHTASIR SE MAGAR PAYT HAY BARA
LA KAR KAHAN SAY DUNYA KA KHANAY LAGAY HAIN LOG


GHAR HAIN BARAY BARAY SAY AJAB THAT BAT HAIN
KARAIN KAHAN SAY LA KAY CHALANAY LAGAY HAIN LOG


MONCHON PAY TAO DAY KAY BATATAY HAIN BAY DHARAK
KAY KIS TARHA SAY RISHWATAIN KHANAY LAGAY HAIN LOG


HUSHYAR KHOD KO KAHTAY HAIN GADAR HAIN MAGAR
APNAY WATAN KO KHUD HE JALANAY LAGAY HAIN LOG


SHARAI JAWAZ DHOND KAY APNAY MAFAD KA
RISHWAT KA MAL GHAR PAY SJANAY LAGAY HAIN LOG


YE SAB NISHANEYAN HAIN QAYAMAT KE NAZLEE
AHKAME RAB KO DIL SAY BHULANAY LAGAY HAIN LOG

PATHARپتھر


GAZAL صورت شمع جلی


GAZAL
صورت شمع جلی
BY
POETESS RUBINA NAZLEE

SORRAT-E-SHAMA JALE
BAT PHIR BHE NA BANE
HAI QURBANE MERE
RAIGAN KAISE GAE
WO JO BUHTAN LAGE
ME SAMAJH BHE NA SAKE
KHUD KO SOCHON ME KABHE
AYSE MUHLAT NA MILE
MOM HO JATA KOE
NAHE AYSA BHE KOE
BAY WAFA SAY KE WAFA
YEHE GALTE THE MERE